Tuesday, June 18, 2019

پاکستان، انڈیا اور ورلڈ کپ 2019: اولڈ ٹریفرڈ سے ہم نے کیا سیکھا؟

اس بات میں قطعی طور پر کوئی شک نہیں ہے کہ انڈین کرکٹ ٹیم دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہے اور پاکستان اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور۔ اگر یقین نہ آئے تو عالمی کرکٹ کی درجہ بندی اٹھا کر دیکھ لیں۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ جب بھی کسی عالمی ٹورنامنٹ میں پاکستان کا انڈیا سے مقابلہ ہوتا ہے تو امید کی ایک رمق روشن ہو جاتی ہے اور دل کرتا ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور پاکستان انڈیا کو شکست دے دے۔ یہی امید پاکستانی شائقین کو ورلڈ کپ میں 16 جون کے مقابلے سے بھی تھی۔
اس امید کی شاید وجہ انگلینڈ میں ان دونوں ٹیموں کے درمیان ہونے والے آخری مقابلے کے نتیجے سے تھی جب جون 2017 می
لیکن شاید شائقین یہ بھول گئے کہ پاکستان نے آئی سی سی مقابلوں میں انڈیا کی ٹیم کا 11 مرتبہ سامنا کیا اور جیت صرف تین بار ان کے مقدر میں آئی ہے۔ آسٹریلیا میں ہونے والے 2015 کے ورلڈ کپ کے بعد سے ان دونوں ٹیموں نے چار میچ کھیلے اور ان میں سے تین میں پاکستان کو شکست نصیب ہوئی۔
اولڈ ٹریفرڈ کے میچ سے قبل ان دونوں ٹیموں کا سامنا آخری دفعہ گذشتہ سال ستمبر میں ایشیا کپ کے دوران ہوا تھا جب انڈیا نے دونوں میچوں میں پاکستان کو بری طرح شکست دی تھی اور ماضی کے چھ ورلڈ کپ مقابلوں کی طرح اس بار بھی جیت انڈیا کے نام ہوئی جنھوں نے 89 رنز سے میچ جیت لیا۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلسل شکست کھانے کے باوجود پاکستانی کرکٹ ٹیم کی مینیجمنٹ کی حکمت عملی میں ایسی کیا کمی بیشی ہے جس کی وجہ سے وہ انڈیا کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ اس حوالے سے ہم نے ان چند نکات پر روشنی ڈالی ہے جو اولڈ ٹریفرڈ میں پاکستان کی شکست کا باعث بنے۔
انڈیا کی جانب سے وراٹ کوہلی نے ٹیسٹ ٹیم کی قیادت 2014 اور پھر ایک روزہ ٹیم کی قیادت 2017 میں سنبھالی اور کوچنگ کا فرائض روی شاستری ادا کر رہے ہیں۔
اس اثنا میں جب جب ان کی ٹیم کا سامنا پاکستان سے ہوا ہے انھوں نے ہر بار اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی ٹیم پاکستان کے خلاف کسی خاص سوچ سے میدان میں نہیں اترتی اور اس کے لیے وہی تیاری کرتی ہے جو وہ ہر دوسری ٹیم کے لیے کرتی ہے۔
دوسری جانب 2017 سے ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کی قیادت کرنے والے سرفراز احمد نے انڈیا سے ہونے والے ہر مقابلے سے قبل کہا کہ یہ ان کی ٹیم کے لیے سب سے خاص میچ ہوتا ہے اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے روایتی حریف کو شکست دیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میچ سے قبل ہی پاکستانی ٹیم اپنی معمول کی تیاری سے ہٹ جاتی ہے اور کھلاڑیوں پر ضرورت سے زیادہ دباؤ آجاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ کوچ مکی آرتھر کے انٹرویو سے لگایا جا سکتا ہے جنھوں نے اس میچ سے قبل کہا تھا کہ انڈیا کے مقابلے میں اچھا کھیلنے والا 'ہیرو' بن جائے گا۔
اس قسم کے دباؤ کے علاوہ اگر پاکستانی ٹیم کی تیاری کو پرکھا جائے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنی بہترین ٹیم میدان میں نہیں اتاری۔ اس کی سب سے بڑی مثال شعیب ملک کی مسلسل ٹیم میں شمولیت ہے جن کی ناقص ترین کارکردگی ٹیم پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔
اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ وہ تمام بلے باز جنھوں نے انگلینڈ میں 20 سے زیادہ اننگز کھیلی ہوں ان میں کم ترین اوسط رکھنے والے چوتھے نمبر کے کھلاڑی شعیب ملک ہیں جن کی اوسط صرف 13.07 ہے۔
اس کے علاوہ گذشتہ دس سالوں میں انڈیا کے خلاف بھی انھوں نے نو میچوں میں ایک نصف سنچری کے ساتھ 28 کی اوسط رکھی ہے اور اسی عرصے میں انگلینڈ کے میدانوں میں انڈیا کے خلاف چار میچ کھیلے اور صرف 44 رنز بنائے اور ان کی اوسط 11 رنز رہی۔
اس کے علاوہ انڈیا کے میچ سے قبل بھی شعیب ملک نے ورلڈ کپ کے دو میچوں میں صرف آٹھ رنز بنائے تھے۔
گو کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ شعیب ملک کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بنتی تھی لیکن کپتان سرفراز اور کوچ آرتھر نے متعدد بار کہا کہ انھیں شعیب ملک کی خدمات چاہیے۔
اس کے بعد اگر بولنگ پر نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ انڈین بلے بازوں کے خلاف پاکستانی سپنرز کی نہیں چلتی۔
سال 2011 سے لے کر اب تک انڈیا کے سب سے خطرناک بلے باز وراٹ کوہلی، روہت شرما، مہندر دھونی اور ہاردک پانڈیا کے خلاف پاکستانی سپنرز نے 639 گیندیں کرائی تھی اور صرف دو وکٹ حاصل کی۔
اس کے باوجود وہ اولڈ ٹریفرڈ کے میدان پر عماد اور شاداب کے علاوہ حفیظ اور شعیب ملک کے ساتھ اترے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے میچ کے شروع ہونے سے قبل ٹویٹس میں کپتان سرفراز کو مشورہ دیا تھا کہ اگر پچ نم نہ ہو تو وہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کریں۔ لیکن ابر آلود موسم اور دوپہر میں تیز بارش کے خدشے کے باعث کپتان سرفراز نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا۔
وکٹ کی کنڈیشن کو دیکھتے ہوئے شاید اس فیصلے پر اعتراض کرنا مناسب نہیں ہوگا لیکن اس کے بعد جو کارکردگی پاکستان کے بولرز نے، ماسوائے محمد عامر کے، دکھائی اس پر جتنی تنقید کی جائے وہ کم ہوگی۔
آسٹریلیا کے خلاف میچ میں بھی پاکستان نے نم پچ اور بادلوں کی موجودگی دیکھتے ہوئے بولنگ کا فیصلہ کیا تھا لیکن شاہین آفریدی نے انتہائی ناقص گیندیں کرائی تھیں۔ اور یہی سلسلہ انڈیا کے میچ میں حسن علی نے بھی جاری رکھا۔
کرک وز نامی ویب سائٹ جو اعداد و شمار کی مدد سے کھیل پر تبصرہ پیش کرتی ہے، ان کی تحقیق کے مطابق حسن علی نے 53 ایک روزہ میچوں میں سے صرف 10 میں بولنگ کا آغاز کیا ہے۔
حسن کو ایک اہم ترین میچ میں نئی بال دینا، جب ان کی ورلڈ کپ کی فارم نہایت خراب تھی، ایک برا فیصلہ تھا۔
سال 2019 میں حسن علی نے 12 میچوں میں تقریباً 90 رنز کی اوسط سے سات وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ ورلڈ کپ میں انھوں نے تین میچوں میں 172 رنز کی اوسط سے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا تھا۔
نتیجتاً انڈیا کے خلاف بھی ان کی خراب فارم کا سلسلہ جاری رہا اور انھوں نے نو اوورز میں 84 رنز دیے اور جس کی وجہ سے محمد عامر کی تمام تر محنت پر پانی پڑ گیا۔
گو کہ عماد وسیم نے قدرے بہتر بولنگ کی اور اپنے دس اوورز میں 49 رنز دیے لیکن شاداب خان، حفیظ اور شعیب ملک نے مجموعی طور پر 11 اوورز کرائے اور 83 رنز دیے مگر کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔ وہ بھی ایک ایسے میدان میں جسے انگلینڈ میں سپن کرنے کے لیے سب سے آزمودہ سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب جب انڈیا نے بولنگ شروع کی تو پہلے جسپریت بمراہ اور بھونیشور نے پہلے چار اوورز میں ہی پاکستان کی پوری اننگز سے زیادہ گیند سوئنگ کی۔
انڈیا کے چاروں فاسٹ بولرز، بمراہ، بھونیشور جو انجرڈ ہو کے چلے گئے تھے، ہاردک پانڈیا اور وجے شنکر نے پاکستان کے مقابلے میں نئی گیند سے کافی بہتر بولنگ کی اور صرف 22 فیصد گیندیں آف سٹمپ سے باہر پھینکیں جبکہ ان کی لینتھ بھی پاکستان کے مقابلے میں وکٹوں کے کہیں زیادہ قریب تھی۔
اور سپنرز کی بات کیا ہی کی جائے۔
جب بابر اور فخر پاکستان کو ایک بہتر سکور کی جانب لے جا رہے تھے تو پاکستان کو کچھ امید بن گئی تھی۔ 11 اوورز سے 20 اوورز کے کھیل کے دوران پاکستان نے انڈیا کے 43 رنز کے مقابلے میں 49 رنز کیے اور کوئی وکٹ نہیں کھوئی۔
لیکن اگلے دس اوورز میں کلدیپ یادیو نے تہلکہ خیز بولنگ کرتے ہوئے پاکستان کے دونوں سیٹ بلے بازوں کو آؤٹ کر دیا اور جہاں انڈیا نے 21 سے 30 اوورز میں بغیر کسی نقصان کے 60 رنز بنائے تھے، پاکستان نے صرف 45 رنز کے عوض چار وکٹیں گنوا دیں۔
اس کارکردگی کی سب سے اہم وجہ بات کلدیپ یادیو کی گیندیں تھی۔ خاص طور پر انھوں نے بابر اعظم کو جس گیند پر آؤٹ کیا اسے روکنا تقریباً ناممکن تھا۔
کرک وز نے کلدیپ کے اُس اوور کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے آؤٹ کرنے والی گیند سے پہلے والی گیند صرف 74 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لیگ سٹمپ سے باہر کرائی لیکن اگلی گیند انھوں نے 78 کلومیٹر کی رفتار سے بابر کی آف سٹمپ کے باہر پھینکی جو انتہائی سرعت سے سپن ہوئی اور بابر کے بلے اور پیڈ کے درمیان سے ہوتے ہوئے وکٹوں سے جا ٹکرائی۔
ں اوول کے میدان میں پاکستان نے انڈیا کو چیمپئینز ٹرافی کے فائنل میں باآسانی 180 رنز سے شکست دے دی تھی۔

No comments:

Post a Comment